عنوان پڑھ کر انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کیا والدین بھی اولاد کے دشمن ہوسکتے ہیں؟ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
”کچن سے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز آئی لگتا تھا کہ کچھ برتن ٹوٹ گئے ہیں۔ اسماءاس وقت کچن میں برتن دھو رہی تھی اس کی والدہ بھاگی بھاگی کچن میں آئیں آکر دیکھا نئے امپورٹڈ ڈنرسیٹ کی پلیٹ ٹوٹی پڑی تھی۔ انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو جھٹ اسماءکے تڑاخ تڑاخ دو تھپڑ ماردئیے اور پھر اسے خوب بُرا بھلا کہا کہ کیا ہاتھوں میں جان نہیں ہے۔ اتنے قیمتی ڈنر سیٹ کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ یہ لڑکی دھیان سے کام کرتی ہی نہیں‘ جب دیکھو نقصان کردیتی ہے‘ دوسرے گھر جائیگی تو کیا کرے گی؟
روتی اسماءنے گلاس میں پانی بھرا اور کھڑے کھڑے الٹے ہاتھ سے پکڑے گلاس کو ایک سانس میں پی کر خالی کردیا۔ ماں دیکھتی رہی اور کچھ نہ بولی کہ بیٹی اس ڈنر سیٹ سے زیادہ قیمتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین سنتیں تو نے ایک لمحہ میں توڑ دیں۔ اس پر ماں کو ذرا بھی صدمہ نہ ہوا۔ یہ ماں اپنی بیٹی کے حق میں کتنی ظالم ہے کہ اسے بیٹی کی آخرت والی زندگی کی کچھ پرواہ ہی نہیں ہے۔“
”احمد کے ابوغصے سے ٹہل رہے تھے‘ اس وقت رات کے نوبج رہے تھے‘ مگر احمد ابھی تک گھر نہیں آیا تھا‘ اس کے ابو عشاءکی نمازباجماعت ادا کرکے آئے تو احمد کو گھر نا پاکر سیخ پاہوگئے‘ احمد کے میٹرک کے امتحانات قریب تھے اور وہ نہ جانے دوستوں کے ساتھ کہاں گیا ہوا تھا؟ اب احمد جونہی گھر داخل ہوا اس کے ابو نے اس کی خوب خبر لی کہ میں محنت کرکے پیسے کماتا ہوں‘ بھاری فیسیں ادا کرکے پڑھوا رہا ہوں‘ اگر فیل ہوگئے تو دوبارہ شکل نہ دکھانا۔ احمد روتا ہوا سیدھا اپنے بستر میں جاگھسا۔ اس کی والدہ سخت پریشان تھیں کہ احمد کھانا کھائے بغیر سوگیا ہے۔
لیکن نہ تو اس کے والد کو یہ خیال آیاکہ میں نے تو نماز پڑھ لی مگربیٹے کی نماز کا کیا بنا؟ نہ ہی والدہ نے سوچا کہ پیارا بیٹا بھوکا سو گیا ہے اس کی توفکر ہے مگر بیٹا بغیر نماز پڑھے سوگیا ہے اور اگلے جہان میں جہنم کی آگ میں جلے گا اس سے کیسے نجات ہوگی اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔“
”لاہور سے اکرم صاحب کو اپنی بیٹی کا فون موصول ہوا کہ میرا اب اپنے خاوند کے ساتھ بالکل گزارہ نہیں ہوسکتا۔ انہیں خدا جانے کس نے پٹی پڑھائی ہے کہ انہوں نے ڈاڑھی رکھ لی ہے‘ شلوار ٹخنوں سے اوپر کرلی ہے اور مجھے بھی کہتے ہیںکہ شرعی پردہ کرو۔ مجھے فوراً طلاق دلوائیں۔ اکرم صاحب نے جواب دیا بیٹی تم فوراً ملتان آجائو اس کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یعنی جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق زندگی گزارنے کا ارادہ کرے اس کا دماغ خراب اور جو یہود ونصاریٰ کا طرز زندگی اپنائے وہ بالکل درست‘ یہ بڑے فکر کی بات ہے۔“
ہمارا معاشرہ ایسی بے شمار مثالوں سے بھرا پڑا ہے کہ والدین اپنی اپنی نمازیں پڑھ کر اولاد کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں وہ کسی بھی لحاظ سے اپنی اولاد کے دوست نہیں کہلا سکتے۔ کلمہ طیبہ پڑھ کر اپنے یقین کو تبدیل کرنا ہوگا کہ ہماری دونوں جہانوں کی مکمل کامیابی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق پورا کرنے میں ہی ہے۔ غیروں کے طریقہ میں ناکامی ہے۔ اس یقین کو بنانے کیلئے عملی مشق اپنے تمام گھروالوں کو کروانے والے والدین ہی اپنی اولاد کے حقیقی دوست اور ہمدرد ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں